islam_human_values_ur

 مصنف : کبیر ھلمنسکی          ترجمہ : مسعود اختر چودھری

اہم ادارتی نوٹ ۲/۲۹/۲۰۱۲

اس مضمون میں کچھ طباعتی غلطیوں کی نشاندہی کی گئِ تھی جنہیں اب درست کردیا گیا ہے اور ہم اس پر معذرت خواہ ہیں۔ اس سے منسلک پی ڈی ایف فائل بھی دوبارہ تخلیق کی گئی ہے۔

 

پیش لفظ

محترم کبیر ھلمنسکی ایک مصنف، شاعر، عالم مغرب میں اسلام اور تصوف کے نمایاں محقق اورشمالی امریکہ میں مولانا جلال الدین رومی سے منسلک روحانی سلسلہِ مولاوی کے رہنما اور سرپرست ہیں ۔ ان کی تالیف کردہ متعدد تصانیف اور ان کی روحانی رہنمائی کی بدولت عالم مغرب میں ہزاروں افراد نے استفادہ کیا ہے۔ یہ تصنیف بنیادی طور پر امریکی عوام الناس کے لئے مرتب کی گئی اور اس کا مقصد انہیں اس امر کی آگہی فراہم کرنا ہے کہ اسلام کی تعلیمات اور عالم مغرب کی اعلٰی معاشرتی اقدار میں بنیادی طور پر کوئی تضاد نہیں ۔ تاہم اس تصنیف میں شامل کئی نکات ایسے ہیں جن سے دنیا بھر کے مسلمان بھی مستفید ہو سکتے ہیں اورمسلم دنیا میں انتہا پسندانہ سوچ کے منفی رجحان میں عام مسلمانوں کو اسلام کی تعلیمات کوایک متبادل نقطہء نظر سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع فراہم کیا جا سکتا ہے۔ یہ ترجمہ اسی کاوش کا حصہ ہے اور ہم پرامید ہیں کہ ہمارے اردو قارئین اس تصنیف سے بھرپور استفادہ کریں گے اور اپنی رائے سے ہمیں آگاہ کریں گے۔

تعارف

یہ تالیف تما م امریکن باشندوں تک کثرت وجود، باہمی برداشت اور انسانی تمکنت جیسی بنیادی انسانی اقدار کےضِمن میں ہماری مکمل تائید کے اظہار کا پیغام پہچانے کیلئے کی جارہی ہے۔ ہم ہر قسم کی دہشتگردی کی علی الاعلان مذمت کرتے ہیں اور آزادی ضمیر انسانی کے حامی ہیں اور امریکن معاشرہ میں ایک مثبت کردار کرنے کے خواہشمند ہیں۔ بحثیت ایک قوم اور بحثیت نسل آدم ہم امریکنوں کو بہت سے پچیدہ مسائل درپیش ہیں ِان حالات میں ہم ایک دوسرے کو صحیح طور پر نہ سمجھ سکنے کی غلطی اور ِبلاجواز تقسیم باہمی کے متحمل نہیں ہوسکتے

یہ پیغام کیوں ضرورت وقت ہے؟

تاریخ کے اس نازک موڑ پر ازحد ضروری ہے کہ ہم ایک حقیقی گفت وشنید نہ صرف بحثیت ایک مسلم امریکن بلکہ بحثیت ایک امریکن دیگر امریکنوں سے کریں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کو صحیح طور پر سمجھانہیں گیا اور اکثر اوقات اُن کو توڑ مڑور کر پیش کیا گیا ہے۔ آ اگر لفظ اسلام خوفزدگی اور بداعتمادی پیدا کرنے کی علامت سمجھا جاتا ہے تو امریکن مسلمانوں پر نہایت اہم فریضہ عائدہوتا ہے کہ ہم اِن خد شات کو دُور کرنے کی کوشش کریں اوراُجاگر کریں کہ اسلام کیسی اقدار کی تعلیم دیتا ہےتاکہ اُس خیال کو کہ مغربی تہذیب کی بہتریں اوراسلام کی اہم اقدار میں ایک بنیادی تضاد ہےزائل کیا جاسکے۔ ہم یہ ثابت کرنے کی اُمید رکھتے ہیں کہ “تہذیبوں کے ٹکراؤ” کے نظریہ کی تائید اسلام سے کسی بنیادی کشیدگی یا تصادم کی بنیاد پر نہیں کی جاسکتی۔ اسلامی تہذیب جو ساتویں صدی عیسوی میں وحی الٰہی کے ذریعے قرآن کے نزول کے نتیجہ میں پروان چڑھی اپنے سے قبل کی تمام وحی الٰہی کی مُکمل تصدیق کرتی ہے اور کثرتِ وجود ادیان، معاشرتی تضادات اور بنیادی انسانی حقوق اور عقل اور فرد کی آزادئ ضمیر کو تسلیم کرتی ہے

        یہ رسالہ اُن عوام الناس کیلئے جن کو قلّتِ وقت کے باعث اِن امور پر غور کرنے کی فرصت ہی مُیّسر نہیں ہوتی تحریر کیا جارہا ہے ہمیں اُمید ہے کہ ہم اِن امور پر زیادہ تفصیل ویب سائٹ کے ذریعہ پیش کریں گے اور بعدازں ایک کتاب میں اِن پر ایک سیر حاصل بحث کریں گے۔ وہ کہانیاں جواخبارات اپنے کالموں اور تکنیکی ذرائع ابلاغ مُسلم دنیا کے مسائل اور ناانصافیوں کی تصاویر کی شکل میں نشر کرتے رہتے ہیں یہ تاثر دیتے ہیں کہ جیسے یہ مسائل جبّلی طور پر اسلام کا حصہ ہیں۔ مثال کے طور پر خواتین کے ساتھ ناانصافی کے واقعات(جو درحقیقت بعض اوقات نہ صرف ہوتے بھی رہتے ہیں بلکہ اُن کی دینی توجیہات بھی پیس کی جاتی ہیں) اُن کی محض سطحی سمجھ بغیریہ علم ہونے کے کہ مُسلم دُنیا میں خود خواتین قرآن کی تعلیمات کو بروئے کار لا کر اپنے خداداد حقوق کے حصول اور اِن ناانصافیوں کے خاتمہ کیلئے جدوجہد میں مصروف ہیں، مغرب میں اسلام کی مذمت کا باعث بنتی ہیں۔ ایک اور مثال متشّد دانہ عمل خاص طور پر دہشت گردی کے جواز میں دینی توجیہات پیش کرنے کی ہے۔ ایسے میں یہ کھوج لگانا ضروری ہوجاتا ہے کہ آیا حقیقتاً تشّد دکا استعمال جبّلی طور پر دین یا اُس کے پیش کردہ نظریہ میں پایا بھی جاتا ہے یا نہیں یا محض سیاسی مقاصد کے حصول کیلئےدین کی تعلیمات کو تور مڑور کر پیش کرکے تشّدد کا جواز پیدا کیا جارہا ہے اور اگر ایسا کیا جارہا ہے تو تما م مسلم اُمّہ کی اکثریت پریہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ایسے غیراخلاقی اور مجرمانہ اقدامات کے لئے دین کا نام استعمال کرنے کی پُرزور مذمت کریں اورھزاروں مسلم اداروں اور قائدین اور دنیا کے ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کی غالب اکثریت نے اِ ن قابل نفریں مُتشّد دانہ نظریات اور عمل کی جو بے گناہ انسانوں کےقتل اور انسانی تمکنت کے منافی اقدامات کو روا رکھے علی الاعلان پُرزور مُذمت کی بھی ہے۔

         کوئی ایسا قانون یا سزا جو ظلم اور ناانصافی کا باعث بنے دراصل کبھی اسلامی ہوہی نہیں سکتا چاہے کوئی بھی شخص شریعت کے متعلق اپنے تصّورات کی بنیاد پر اُس کا جواز سمجھتا ہو۔ شریعت نہ تو ایک غیر متحرک مجموعہء قوانین کا نام ہے اور نہ ہی یہ وحئ الٰہی ہے بلکہ یہ انسانوں کے وضع کردہ اُس مجموعہء قوانین کا نام ہے جو اُنہوں نے اپنی سمجھ کے مطابق وحئ الٰہی سے اخذ کئے ہیں لیکن ان کے انسانی غلطیوں، تعصبات یا توڑ مروڑ سے پاک ہونے کی ضمانت نہیں دی جاسکتی اِس طرح شریعت پتھر پر تقّش ہونے کی طرح جامد ہونے کی بجائے اصولوں کے ایک ایسے مجموعہ کا نام ہے جو اپنے مختصات اور اطلاق کے معاملہ میں تنقید سے بالا تر نہیں ہے۔

اسلام کی نمائندگی یا اُس کے متعلق بات کرنے کا حق کس کو حاصل ہے؟

     اگر اسلام میں پوپ یا اُس جیسی مرکزی دینی حاکمیت کا فقدان ہے تو یہ جاننے کیلئے کہ حقیقتاً کیا اسلامی ہے کوئی کسوٹی ہے؟

     تمام مُسلمان قرآن ہی کو اپنا نقطہ حوالہ مانتے ہیں اور تاریخی طور پر اُن میں اخلاقیات، معاشرتی انصاف اور اللّہ کی رحمانیت پر تقریباً مکمل اتفاق پایا جاتا ہے۔

    اسلام کے دینی دائرہ میں قرآن کو ایسی حثیت حاصل ہے جیسی کہ امریکہ کے آئین کو امریکہ کے سیاسی نظام میں ہے۔ یہاں ایک ممکنہ غلط فہمی کے احتمال کے ازالہ کیلئے یہ وضاحت کر دینا ضروری ہے کہ قرآن کوئی تفصیلی سیاسی نظام باہم نہیں پہنچاتا البتہ اخلاقیات، انصاف اور روحانی بصیرت مُہیا کرنے کیلئے ایک مکمل ڈھانچہ پیش کرتا ہے۔ مُسلمانوں کے تما م مکا تب فِکرسے مُنسلک اصحاب اسلام مین قطعی اتھارٹی کے طور پر قرآن ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ہم یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ تشریحات میں کچھ اختلافات کے باوجود روآیتی اسلام نے کثرت ِوجود ادیان، آزادی، انسانی حقوق اور انسانوں کی آزادئ ضمیر کااحترام کیا ہے۔

اسلامی تہذیب میں دینی برداشت اور دینی اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت کی حوصلہ افزائی کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن واضح طور پر یہ تعلیم کرتا ہے کہ تنوع ادیان یعنی دینوں کا گونا گوں ہونا مشیت الٰہی کا ایک حصہ ہے اور سچائی اور نیکی پر کِسی دین کی اجارہ داری نہیں ہے نتیجتاً ماسوائے چند اسلامی معاشروں نے وجودِ کثرت اِدیان کو قبول کیا ہے اور دینی اقلیتوں کو تفظ فراہم کیا ہے۔    میں کیونکر یہ باور کروں کہ جو میں یہاں پڑھ رہا ہوں مسلمانوں کی غالب اکثریت حقیقی معنوں میں اُس پر ایمان رکھتی ہے اور ایسا ہی سوچتی ہے؟

     اولً یہ ثبوت مہیا کرنے کےلئے کہ روایتی اسلام انسانی حقوق اور آزادئ دین کا احترام کرتا ہے ہم تاریخ عالم سے حوالے پیش کرتے ہیں۔ یروشلم تقریباً چودہ سو برس متواتر اسلامی حکومت کے ماتحت رہتے ہوئے بھی وہ جگہ  ہے جہاں عیسائی، یہود اور مسلمان شانہ بہ شانہ رہتے رہے ہیں اور اُن کے مقدس مقامات اور دینی آزادی محفوظ رہے ہیں ۔ زمانہ وسطٰی کے ہسپانیہ نے مسلمانوں کے کئی صدیوں کے عہد حکومت میں کثیر الثقافت معاشرہ کی بدولت ایک بُلند پایہ تہذیب دیکھی ہے۔ سلطنت عثمانیہ نے جو تاریخی لحاظ سے سب سے طویل سلطنت تھی اپنے چھ صدیوں سے زیادہ دور حکومت میں نسلی اور دینی اقلیتوں کی معاشرہ میں شمولیت اور معاشرہ مین اپنا کردار ادا کرنے کی حوصلہ افزائی کی ۔ یہ عثمانی سلطان ہی تھا جس نے کیتھولک ہسپانیہ سے خارج کردہ یہودیوں کو پناہ دی۔

     ہندوستان میں صدیوں مسلمانوں کی حکومت قائم تھی جس میں وہاں کے باشندوں کی اکثریت اپنے ہندو دین پر عمل پیرا رہے۔

     ہم یہ ثبوت بھی فراہم کرسکتے ہیں کہ مسلمام دینی قائدین ایسے سیاسی حاکموں کے خلاف نبرد آزما رہے جو عوام بشمول اقلیتوں کو اُن کے حقوق سے محروم کرنا یا رکھنا چا ہتے تھے۔

     ثانیاً۔ بڑی بڑی اسلامی تنظیموں اور قائدین کی تائید اِس بات پر گواہ ہے کہ جو کچھ یہاں بیان کیا گیا ہے وہ مسلمانوں کی اکثریت کی وسعت نظری کی نمائندگی کرتا ہے۔

 اسلام کے دیگر ادیان کے ساتھ تعلقات

     ایک عام تاثر یہ ہے کہ اسلام مسلمانوں کی فوجی فتوحات کے ذریعہ پھیلا تھا۔ اگرچہ یہ دُرست ہے کہ اپنے شروع کے زمانہ کی توسیع میں وابستگان اسلام نے ایک ریاست اور تہذیب جو اُس زمانہ کی معلوم دُنیا کے ایک وسیع حصہ پر محیط تھی قائم کی تھی باین اُن کے زیر اقتدار علاقوں میں اسلامی قانوں نے عیسائیوں، یہودیوں اور دیگر مذاہب کے مانے والوں کو اُن کے دینی معاملات میں مکمل خود مُختاری عطا کر رکھی تھی۔ اسلام سلطنت کا قیام دین اسلام کو اُن لوگوں پر مسلط کرنے جو اُن کے زیر اقتدار تھے کے مترادف نہ تھا۔ مثال کے طور پر بہت سے مسیحی فرقوں کو اسلامی سلطنت میں اُس سے زیادہ دینی آزادئ حاصل تھی جو اُن کو بازنطینی عیسائی حکومت کے تحت میّسر تھی۔ غیر مسلم رعایا کو تحفط یافتہ باشندگان کا درجہ دیا گیا تھا اور ایک برائے نام ٹیکس کے عوض اُن کو فوجی خدمات سرانجام دینے سے مستثنٰی قرار دیا گیا تھا۔ ہم آج بھی اُس خط کی تقل کو پڑھ سکتے ہیں جو حضرت محمدؐ نے مصر کے صحرائےسینا میر قائم سینٹ کیتھرائن کی خانقاہ اور اُس کے عیسائی گروہ کو مکمل حفاظت کی ضمانت دیتے ہوئے لکھا تھا۔ باوجود اِس بات کے اسلامی دستور میں رہابنیت کو قبولیت حاصل نہیں تھی۔

کیا اسلام زبردستی تبدیلئ دین کی اجازت دیتا ہے؟

نہیں ہرگز نہیں۔ اسلام کی قبولیت مکمل آزادئ رائے کا عمل ہے۔ تبدیلی دین کے معاملہ میں کِسی بھی قسم کاجبر روا رکھنے کی اسلامی علماء نےعالمگیرطور پر مذمت کی ہے۔ ظاہر ہے کہ زبردستی کی تبدیلی دین کی دین تبدیل کرنے والے کی نگاہ میں کوئی حقیقت نہ ہوگی اور نہ ہی اللّہ تعالٰی کے ہاں اُس کی کوئی قدروقیمت ہوگی۔

 کیا یہ دُرست ہے کہ اسلام سے منحرف ہوجانے کی سزا موت ہے؟

     اسلام کے ابتدائی ایام میں کچھ ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ اسلام سے منحرف ہونا غداری کرنے اور بغاوت کے مترادف سمجھا گیا لیکن یہ مثالیں ایسے منحرف ہونے والوں کی ہیں جو اسلام کے مخالف ہو کر علی الاعلان اُن لوگوں اور قوتوں سے جا ملے تھے جو اسلام کو اُس کے عہد طفولیت میں ہی ختم کر دینے کے درپے تھے۔

     اسلام سے منحرف ہو جانے کی سزا موت مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی اقلیت کا اعتقاد ہے لیکن مسلمانوں کی ایک غالب اکثریت اسلام سے منحرف ہو جانے والوں کیلئے موت کی سزا کو ایک فاش غلط تشریح سمجھتی ہے اُن فقہا کے نزدیک بھی جو سمجھتے ہیں کہ بعض اوقات دین سے انحراف کی سزائے موت کا جواز ہے سزائے موت کا حُکم صادر کرنا ایک مجاز قانونی حاکم یعنی عدالت کا کام ہے اور یہ خود ساختہ محافظین دین کے طریق سے عمل پذیر نہیں کی جاسکتی۔ مثال کے طور پر یہ معلوم ہے کہ رسول کریم ﷺ کے دوران زِندگی اُن کو ایسے لوگوں کی خبر تھی جو اسلام قبول کرنے کے بعد اسلام سے منحرف ہوگئے تھے لیکن  آنحضرتؐ نے اُن کے لئے کوئی سزا تجویز نہیں کی تھی۔

     صدیوں پر محیط زمانہء اقتدار میں حقیقتاً عملی لحاظ سے اسلامی معاشروں کا ضمیر اِنسانی کی آزادئ پر قدغن کا عمل شاذونادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔

     ہم امریکن مسلمان و اشگاف الفاظ میں اعلاں کرتے ہیں کہ ہم دین کے معاملہ میں لوگوں کے اپنی ضمیر کی آواز کی پیروکاری کے حق کو تسلیم کرتے ہیں۔

کیا اسلام کی منزل مقصود جہاں کہیں مسلمان اکثریت میں ہوں وہاں ایک مذھبی ریاست کا قیام ہے؟

اسلام کے بعض نقاد دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام میں دینی اور سیاسی حاکمیت میں کوئی امتیاز نہیں ہے۔ یہ لاعلمی اور غلط مفروضوں پر مبنی ایک فاش غلط فہمی ہے۔ اسلام کی چودہ سو برس کی تاریخ میں اُس کی دینی اور سیاسی حاکمیت شاذونادر ہی یکجا جمع ہوئی ہے۔

قرآن کوئی سیاسی نظام تجویز نہیں کرتا اور نہ یہ تجویز کرتا ہے کہ مذھبی حاکمیت ہو۔ درحقیقت یہ تو یہ بھی تجویز نہیں کرتا کہ مسلمانوں میں ایک دینی پادریت کی قِسم کا کوئی طبقہ ہو لہذایک معّین دینی اور پادریانہ طرز کے طبقہ کی اجازت نہ ہونے کے نتیجہ میں عوام الناس آزاد ہیں کہ وہ جس قِسم کی حکومت پسند کرتے ہیں بنائیں۔

یہاں تک کہ جہاں شہریوں کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہو اُن کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنے دینی اعتقادات دوسروں پر مُسلط کریں۔ تاریخی طور پر اسلامی قانون نے دینی اقلیتوں کو اُن کےاپنے دینی فرمانوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حق دیا ہے یہاں تک کہ اُن فرمانوں، میں ایسےذاتی اعمال کی بھی اِجازت ہے جن کی اسلامی قوانین میں ممانعت ہے مثال کی طور پر عیسائیوں اور یہودیوں کو اُن علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی حکومتیں مقتدر ہیں شراب نوشی کی اجازت ہے۔

تاریخی طور پر اسلامی ریاستوں میں تقریباً ہمیشہ سیاسی اور دینی حاکمیت علیحدہ علیحدہ رہی ہے ۔ ایران کی موجودہ حکومت جس کو آج کل بہت لوگوں کے اذہان میں اولیت حاصل ہے اُن بہت ہی شاذ و نادر امثال میں سے ہے جہاں دینی اور سیاسی حاکمیت ایک ہی جگہ جمع کردی گئی ہو۔ ایک زیادہ درخشاں مثال سلطنت عثمانیہ ہوگی جہاں حکومت تو سلطان کرتا تھا جبکہ دینی قیادت ایک شیخ الاسلام کے پاس تھی جس کو دینی علماءکی ایک جماعت منتخب کرتی تھی۔ سُلطان دینی قوانین کی خلاف ورزی کیلئے جواب دہ ہوتا تھا۔

اسلام سیاسی طاقت یا کنٹرول کا مرہون مِنت نہیں ہے اور قرآن میں کچھ ایسا نہیں ہے جو یہ تجویز کرتا ہو۔ یہ دُرست ہے کہ آج کی دُنیا میں ایسے انتہا پسند ہِیں جو متحدہ دینی اور سیاسی حاکمیت کے خواب دیکھتے ہیں لیکن ایسے خواب مسلمانو ں کی غالب اکثریت کے نہیں ہیں جو حقیقت پسندانہ طور پر ایسے نظام میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں جو دینی آزادی کی ضمانت فراہم کرتا ہو

اسلام کا دوسرے ادیان سے تعلق؟

قرآن میں ایسی بہت سی آیات ہیں جو کہ انسانوں کے طرز زندگی اور دینی اعتقادات میں تفاوت کی حقیقت بلکہ اُس کی ضرورت کی تائید کرتی ہیں۔ ارشاد باری تعالٰی ہے:۔

“اے نبی نوع انسان ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں قومیں اور قبائل بنایا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کو جان سکو۔ حقیقتاً اللہ کی نگاہ میں سب سے زیادہ شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو” سورۃ الحجرات آیت۱۳ اور نیز ” ہر قوم کیلئے ہم نے عبادت کا طریقہ مقرر کیا جس پر وہ چلیں۔ پس تجھ سے اس امر میں جھگڑا نہ کریں اور تو اپنے رب کی طرف بُلا یقیناً تو سیدھےراستہ پر ہے اور اگر تُجھ سے جھگڑا کریں تو کہہ اللہ  خُوب جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔ اللہ تمہارے درمیان قیامت کے دِن اُن باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں تم اختلاف کرتے ہو” سورۃ الحج آیات 69-67  اور پھر ” جو ایمان لائے اور جو یہودی ہُوئے اور عیسائی اورصابی جو کوئی بھی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لاتا ہے اور اچھے کام کرتا ہے تو اُن کیلئے اُن کا بدلہ اپنے رب کے ہاں ہے اور اُن کو کوئی ڈر نہیں اور نہ وہ غمگین ہونگے” سورۃ البقرہ آیت 62

قرآن’ مُومنین ‘ اور ‘کافرین’ کا ذکر یا حوالہ کن معانی میں کرتا ہے؟

جب قرآن کا ترجمہ شروع میں انگریزی زبان میں کیا گیا تو بائبل کی اصطلاحیں استعمال کی گئیں لیکن بعض معاملات میں یہ غلط فہمی کا باعث بنیں۔ قرآن میں ایمان لانے والے کیلئے لفظ ‘مومن’ یعنی کوئی ایسا شخص جو ایمان رکھتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ زندگی کیلئے ایک روحانی مقصد ہے۔ ایمان نہ رکھنے والوں کیلئے لفظ ‘کافر’ ہے اور اِس کے لُغتی معانی انکاری ہونا اور مُتکبر اور نا شُکرا ہونا ہیں یہ الفاظ اپنی اصل میں غیر مُسلموں کی نشاندہی کرتے ہیں۔

جب رسول کریم ﷺ پر قرآن نازل ہورہا تھا تو چند سال تک مُسلمان طبقہ مکہ کے عربوں کے زیر عتاب تھا جنہوں نے مسلمانوں کو اُن کے گھروں اور علاقہ سے نکال دیا تھا۔ اِس طرح قرآن کی اُن سورتوں میں جن کا نزول اُس زمانہ میں ہُوا مکہ کے اُن لوگوں کو جو اِس طرح مصروف جنگ تھے اور بُت پرست تھے کافرین کہا گیا۔ اُنہی دِنوں میں مسلمانوں کے ایک گروہ نے حبشہ کے ایک نیک عیسائی بادشاہ کے ہاں پنا ہ لی تھی جس حقیقت کو ہر مُسلمان جانتا ہے۔ نِیز مدینہ جہان حضرت محمد ﷺاور مسلمانوں نے ہجرت کرکے پناہ لی تھی وہاں رہنے والے یہودی قبیلوں کے ساتھ باہمی اتحاد کا ایک میثاق کیا تھا۔ اِ سے ثابت ہے کہ ‘کافرین’ جن کا ذِکرقرآن میں ہے وہ لفظ یہودیوں اور عیسائیوں کے بارے میں استعمال نہ ہوا ہے بلکہ وہ مکہ کے اُن عربوں کے بارے میں ہے جو مسلمانوں پر حملہ آورہو رہے تھے۔

نوٹ نمبر1: قرآن میں بعض اوقات اللہ اپنے لئے جمع کاصیغہ ‘ہم’ استعمال کرتا ہے۔

نوٹ نمبر2: صابی وہ دیگر تمام ادیان جو اللہ کی طرف سے نازل ہُوئے چاہے ہم اُن کو جانتے ہیں یا نہیں۔

اسلام کا عیسائیت اور دین یہود کے ساتھ تعلق ہے؟

قرآن ابراہیمی سلسلہء مذاھب کے تمام انبیاء کی عزت کرتا ہے اور صاف طور پر تسلیم کرتا ہے کہ انسانی تاریخ میں جو بھی انسان ہُوئے ہیں اُن کی طرف انبیاء بھیجے گئےہیں۔ قرآن میں حضور نبی کریم ﷺ سے کہا گیا ہے کہ وہ اہل کتاب (یہودی عیسائی اور دیگر ادیان جن کے پاس ربانی صحیفے ہیں) سے کہہ دیں:۔

“کہہ اے اہل کتاب اس بات کی طرف آؤ جو ہمارے درمیان اور تمہارے درمیان یکساں ہے کہ ہم اللہ کے سِوا کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ اُس کے ساتھ شریک بنائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سِوا رب بنائے۔ اور اگر وہ پھر جائیں تو تہم کہو گواہ رہو کہ ہم فرمانبردار ہیں”۔سورۃ العمران آیت 64

قرآن میں کم از کم سولہ آیات ایسی ہیں جو ما قبل کے نازل شدہ صحیفوں کی سچائی کی تصدیق کرتی ہیں اور حضرت محمدﷺ سے یہ خطاب اِلہٰی ہؤا:۔

“ہم نے تیری طرف کتاب حق کے ساتھ نازل کی اُس کی تصدیق کرتی ہُوئی جو اُس سے پہلے کتاب میں ہے اور اُن پر نگہبان ہے” سورۃ المائدہ آیت 48

قرآن یہ واضح الفاظ میں کہتا ہے کہ اگر یہودی اور عیسائی اُس وحئ الہٰی کی ابتا ع کریں جو اُن کو دی گئی ہے (یعنی تورات اور انجیل) تو اُن کو زمین اور آسمان کی بخشش رِبانی میں حصہ ملے گا۔ سورۃ المائدہ میں اِن الفاظ میں ارشادِ الہٰی ہے:۔

“اگر اہل کِتاب ایماں لاتے اور تقوٰی کرتے تو ہم ضرور اُن سے اُن کی بُرائیاں دور کردیتے اور اُن کو نعمت کے باغوں میں داخل کرتے اور اگر وہ توریت اور انجیل کو قائم رکھتے تو اپنے اُوپر سے اور اپنے پاؤں کے نیچے سے کھاتے رہتے۔ اُن میں سے ایک گروہ میانہ رو ہےاور بہت سے اُن میں سے بُرے کام کرتے ہیں۔ اے رسولﷺ جو کچھ وحی سے تیری طرف اُتارا گیا ہے پہنچا دے اور اگر تو ایسا نہ کرے تو تُونے اس پیغام کو نہیں پہنچایا اور اللہ تجھے محفوظ رکھے گا۔ اللہ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔” سورۃ المائدہ آیت 67

اور “کہہ اے اہل کتاب تم کہی سچائی پر نہیں یہاں تک کہ انجیل توریت اور انجیل کو قائم رکھو اور اُس کو جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف اُتارا گیا اور جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی طرف سے اُتارا گیا یقیناً  اُن میں سے بہتوں کو سرکشی اور انکار میں بڑھائے گا۔ سو توکافر قوم پر افسوس نہ کر”۔ سورۃ المائدہ آیت68

دین یہود اور اُن کے انبیاء کے متعلق

کلام الہٰی جو قرآن میں خطاب کرتا ہے نہ صرف یہود کے صحیفوں کی سچائی کی تصدیق کرتا ہے بلکہ یہ دعوٰی بھی ہے کہ اُس وحی کا منبع بھی وہی یعنی کلام اللہ ہے:۔

“ہمیں نے توریت اُتاری اُس میں ہدایت اور روشنی ہے۔ نبی جو فرمابردار تھے اُسی کے مطابق یہودیوں کیلئے فیصلے کرتے تھے اور علماء اور مشائخ بھی ۔ اِس لئے کہ اللہ کی کتاب کی حفاظت کرنے کو اُن سے کہا گیا تھا اور وہ اُس پر گواہ تھے۔ سو لوگوں سے مت ڈرو اور مجھ سے ہی ڈرو اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑی قیمت نہ لو۔ اور جو اُس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے اُتارا ہے تو وہی کافر ہیں”۔ سورۃ المائدہ آیت 44

اور ایک اور ارشادِ باری تعالٰی ہے:۔

“اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل کیلئے یہ مقرر کردیا کہ جو کوئی کِسی جان کو بغیر جان کے (بدلہ) یا زمیں میں فساد کے مار ڈالے تو گویا اُس نے سب انسانوں کو مار ڈالا اور جو کوئی اُس کو زندہ رکھے تو گویا اُس نے سب انسانوں کو زندہ رکھا”۔ سورۃ المائدہ آیت 32

اور یہ :۔ ” اور ہم نے اُس (توریت) میں اُن پر یہ فرض کیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور رخموں میں بدلہ ہے پھر جو شخص اُسے مُعاف کردے تو وہ اُ س کیلئے کفارہ ہوگا۔اور جو اِس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے اُتارا ہے تو وہی ظالم ہیں”۔ سورۃ المائدہ آیت 45

حضرت عیسٰی علیہ السّلام کے متعلق

    اسی طرح قرآن میں حضرت عیسٰی علیہ السّلام کو بھی ایک پیغمبر کی حیثیت میں مکمل احترام و عزت کا مقام دیا گیا ہے اور اُن کا تعارف ‘کلمۃاللہ’ کے خطاب سے کرایا گیا ہے۔

“جب فرشتوں نے کہا اے مریم اللہ تجھے اپنی طرف سے ایک کلام کے ساتھ خوشخبری دیتا ہے۔اُس (مبشر) کا نام مسیح عیسٰی ابنِ مریم ہے جو دُنیا اور آخرت میں وجاہت والا ہوگا”۔ سورۃ آل عمران آیت 45

اور یہ ارشاد بھی ملا حظہ ہو:۔

“اور ہم نے اُن کے قدموں پر عیسٰی ابنِ مریم کو اُن کے بعد بھیجا اُس کی تصدیق کرتا ہُوا جو اُس سے پہلے توریت میں سے تھا۔ اور ہم نے اُس کو انجیل دی، اُس میں ہدایت اور نُور ہےاور اُس کی تصدیق کرتی ہُوئی جو اُس سے پہلے توریت میں سے تھا۔ اور متقیوں کیلئے ہدایت اور نصحیت ہے” سورۃ المائدۃ آیت  46

نیز:۔ “اور ہم نے عیسٰی ابنِ مریم کو کُھلے دلائل دیئےاور روح القدوس سے اُس کی تائید کی ” سورۃ البقرۃ آیت 253

قرآن مُسلمانوں کو تما م مخلص دینی گروہوں کی عزت کرنے کا حُکم دیتا ہے:۔

“اے لوگو جو ایمان لائے ہو جب تم اللہ کی راہ میں نکلو تو تحقیق کر لیا کرو اور جو تمہیں السلام علیکم کہے اُسے یہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں”۔ سورۃ النساءآیت 94

اور:۔ “ہم نے تم میں سے ہر ایک کیلئے ایک شریعت اور طریق مقرر کیا ہے اور اگر اللہ چا ہتا تو تم کو ایک گروہ بنا دیتا لیکن (وہ چاہتا ہے) کہ جو کچھ تم کو دیا ہے اُس میں تمہارے جوہر پرکھے سو نیکیوں کو آگے بڑھ کر لو تم سب کو اللہ کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے پس جن باتوں میں تم اختلاف کرتے تھے وہ تمہیں بتا دے گا”۔ سورۃ المائدہ آیت 48

نیز:۔ “سب برابر نہیں، اہل کتاب میں سے ایک جماعت حق پر قائم ہے جو اللہ کی آیتوں کو رات کی گھڑیوں میں پڑھتے ہیں اور سجدے کرتے ہیں وہ اللہ اور آخرت کے دِن پر ایمان لاتے ہیں اور اچھے کاموں  کا حُکم دیتے ہیں اور بُرے کاموں سے روکتے ہیں اور نیکیوں کو جلدی لیتے ہیں اور وہی نیکوں میں سے ہیں اور جو کچھ وہ نیکی کریں گے تو اُس کی ناقدری نہیں کی جائے گی۔ اور اللہ متقیوں کو خُوب جانتا ہے”۔ سورۃ آل عمران آیات 115-113

قرآن مُسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ واضح اعلان کریں:۔

“کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اُس پر جو ہم پر اُتارا گیا اور اُس پر جو ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور (اُس کی) اولاد پر اُتارا گیا اور جو موسٰی اور عیسٰی اور نبیوں کو اُن کے رب کی طرف سے دیا گیا۔ ہم اُن میں سےکِسی میں فرق نہیں کرتے اور ہم اُس کے فرمانبردار ہیں”۔ سورۃ آل عمران آیت ۸۴

قرآن کے مطابق اسلام دیگر ادیان کے پیروکاروں کے ساتھ تعلقات کو صرف برداشت کی حد تک ہی نہیں بلکہ احترام، ہمدردی، امن اور باہمی وجود اور تعاون کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے کا نام ہے۔

قرآن ما قبل کے ادیان کے علماء کے احترام کی ہدایت کرتا ہے:۔

“اس لئے کہ اُن میں سے عالم اور راہب ہیں اور اِس لئے کہ وہ تکّبرنہیں کرتے”۔ سورۃ المائدہ آیت 82

دوسرے ادیان سے تعلقات کے معا ملہ میں قرآن غیر طرفداری اور انصاف پسندی کا تقاضا کرتا ہے اور یہ کسی بھی معنی میں دینی برتری کو یہ اٰعلان کر کے مٹاتا ہے کہ آسمان (جنت) بلاشرکت غیرے صرف مسلمانوں ہی کیلئے مخصوس نہیں ہے:۔

“جو ایمان لائے اور جو یہودی ہُوئے اور عیسائی اور صابی جو کوئی بھی اللہ اور یوم آخرت پر ایماں لاتا ہے اور اچھے کام کرتا ہے تو اُن کے لئے اُن کا بدلہ اپنے رب کے ہاں ہے اور اُن کو کوئی ڈر نہیں اور نہ وہ غمگین ہونگے”۔ سورۃ البقرہ آیت 62

نیز سورۃ المائدہ کی آیت 69 میں یہی الفاظ پھر دہرائے گئے ہیں۔

بہت سی آیتوں میں قرآن مُسلمانوں کو دیگر ادیان کے ساتھ میل جول کے تعلقات قائم کرنے کیلئےایسے موضوعات پر گفتگو کرنے سے گریز کرنے کی ہدایت کرتا ہے جو باہمی نزاع کا باعث بنیں اور اُس کی بجائے اُن موضوعات پر زور دیتا ہے جن میں یکسانیت ہو:۔

“اور اُن کو گالی نہ دو جن کو یہ اللہ کے سوائے پکارتے ہیں (ایسا نہ ہو) کہ وہ زیادتی کر کے بے علمی سے اللہ کو گالی دیں۔ اِسی طرح ہم نے ہر ایک گروہ کیلئےاُن کا عمل اچھا کر کے دکھایا ہے۔ پھر اُن کے رب کی طرف اُن کا لوٹ کر آناہے سو وہ اُنہیں بتا دیگا جو وہ کرتے تھے:۔ سورۃ الاانعام آیت  108

امام برزگان نے جو ہالی وڈ کیلیفورنیا میں رہائش پذیر ہیں مندرجہ ذیل شماریات اور امثال مہیا کی ہیں جو کہ اسلام سے پہلے کے ادیان انبیاء، صحیفوں اور نیک پیروکاروں کے احترام کے متعلق قرآن کے تصّورکی بہتر سمجھ بڑھانے میں معاون ثابت ہوئی ہیں:۔

جبکہ قرآن میں حضرت موسٰی علیہ السلام کا ذکر ایک سو چھتیس بار(136)، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام اُنسٹھ(59) بار اور حضرت عیسٰی علیہ السلام اور اُن کی والدہ حضرت مریم کا نام (دونوں کو ملاکر) ستّر(70) بار آیا ہے لیکن حضرت محمدؐ جو کہ اِس دین کے رسول ہیں اُن کا نام صرف چار (4) بار آیا ہے۔ موت کے اس وسیعی منظر اور قرآن کا دیگر ادیان کے شریف اور نیک کردار کے حامل اصحاب کے احترام کیلئے مسلمانوں کو بار بار یاد دلانا اسلام کی صلح پسند طبعی حالت کی مزید علامت ہے۔

قرآن کی تیسری سورۃ العمران (آل عمران) میں حضرت عیسٰی علیہ السلام ۔۔۔۔حضرت مریم حضرت ذکریا اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کے شجرہ نسب اُن کی توقیر کیلئے دیا گیا ہے تا ہم قرآن میں کوئی سورۃ آل محمدؐ کے خاندان کے بارے میں نہیں ہے۔

قرآن کی اکیسویں سورۃ مریم حضرت مریم کے نام سے منسوب ہے لیکن قرآن کی کوئی سورۃ حضرت محمدؐ کی عالی مرتبہ بیٹی فاطمہ کے نام سے منسوب بہ ہے۔ اسی طرح قرآن میں کوئی سورۃ حضرت محمدؐ کی والدہ یا اُن کی قابل احترام زوجہ خدیجہ کے نام سے نہیں ہے۔

قرآن کی سترھویں (16) سورۃ بنی اسرائیل (اسرائیل کے بچوں) ہے تاہم قرآن میں کوئی سورۃ ایسی نہیں ہےجس کا نام بنی ہاشم ہو۔ یہ اِس وجہ سے ہے کہ مُسلمان اپنے آپ کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل ہونے کے ناطے بنی اسرائیل یعنی حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد کے چچا زاد بھائی سمجھتے ہیں۔

قرآن کی طویل سورتوں یعنی البقرہ۔ العمران اور المائدہ اور درمیانی اور چھوٹی طوالت کی سورتوں کا معتدیہ حصہ بنی اسرائیل کی تاریخ اور اُن کی آزمائشوں اور مصائب کے ذکر پر مشتمل ہے۔

پھر کیا وجہ ہے کہ بعض اسلامی حکومتیں جیسے سعودی عرب اور ایران دینی آزادی پر پابندی عائد کرتی ہیں؟

قرآن سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۲۶۵میں نہایت یقینی طور پر اعلان کرتا ہے کہ “دین کے معاملہ میں کوئی جبرنہ ہوگا” اور یہ یقین دلاتا ہے کہ لوگوں کو دین اور روحانی اقدار کے چناؤ کے معاملہ میں مکمل آزادی ہوگی۔

نبی کریم ﷺ نے اپنے پیروکاروں کیلئے تنوع ادیان یعنی دینوں کے گونا گوں ہونےکی حقیقت کے انتظام کے معاملہ میں خُود ایک مثال قائم کی ہے جس میں مسلمانوں کواللہ تعالٰی کے مختلف ادیان کے پیروکاروں کو ایک دوسرے کے ساتھ بسر کرنے کے فیصلہ کو قبول کرنے اور اُس کا احترام کرنے کا حُکم ہے یہاں تک کہ اُن لوگوں کے ساتھ بھی جو اللہ پر ایمان نہ لانے کا چناؤ کرتے ہیں۔ا س رائے کا اظہار عبدالعزیز سچیدنا نے کیا ہے۔

کیااسلام سچائی اور نیکی کی اجارہ داری کا دعویدار ہے؟

قرآن کی بہت سی آیتوں سے صاف ظاہر ہے کہ تقوٰی، عمدہ اخلاق اور اللہ کے ساتھ کسی کا تعلق بلا شرکت غِیرے صرف مسلمانوں کی ملکیت نہیں ہے لہذا تنوع ادیان ضروری ہے اور یہ تنوع ہمیں اپنی آدمیت اور اللہ سے ہمارے تعلق کو سمجھنے میں مدد گار ہوسکتا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالٰی ہے:۔

“اگر تیرا رب چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی گروہ بنا دیتا اگرچہ وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہینگے” سورہ ہود آیت 118

نیز :۔ “ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے ایک شریعت اور طریق مقرر کیا ۔ اگر اللہ چاہتا تو تم کو ایک ہی گروہ بنا دیتا لیکن وہ چاہتا ہے کہ جو کچھ تم کو دیا ہے اُس میں تمہارے جوہر پرکھے۔ سو نیکیوں کو آگے بڑھ کر لو۔ تم سب کو اللہ کی طرف ہی لوٹ کرجانا ہے ۔ پس جن باتوں میں تم اختلاف  کرتے تھے وہ تمہیں بتا دیگا”۔ سورۃ المائدہ آیت 48

طاقت اور تشدّدکے متعلق اسلام کیا تعلیم دیتا ہے؟

کیا اسلام اپنے مقاصد کے حصول کیلئے تشدّد کو جائز قرار دیتا ہے؟ تشدّد کا استعمال کن حالات میں جائز گردانا جاتا ہے؟

عمومی طور پر کُھلی جارحیت کے مقابلہ میں اپنے دفاع کے علاوہ اسلام میں جنگ کی ممانعت ہے اگر حالات ایسے ہیں کہ نا انصافی کا ارتکاب ہورہا ہے یا مُسلم قوم پر حملہ کیا جارہا ہے تب عارضی طور پر اپنا دفاع کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ قرآن کی مندرجہ ذیل آیتوں میں اِس اصُول کی تشریح دی گئی ہے:۔

“اُن لوگوں کو اجازت دی گئی جن سے جنگ کی جاتی ہے اس لئے کہ اُن پر ظلم کیا گیا اور اللہ یقیناً اُن کی مدد پر قادر ہے۔ وہ جو گھروں سے نکالے گئے  صرف اس بات پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے۔ اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے نہ ہٹاتا رہتا تو یقیناً راہبوں کی کوٹھریاں اور گرجے اور عبادتگاہیں اور مسجدیں جن میں اللہ کا نا م بہت لیا جاتا ہے گرادی جاتیں”۔ سورۃ الحج آیات 40-39

دفاعی جنگ کی اعلٰی ترین واجبیت دینی آزادی اور انسانی حقوق کا دفاع ہے اس آیت میں مسجدوں کے ساتھ ساتھ یہودیوں اور عیسائیوں کی عبادتگاہوں کے دفاع کو بھی فرض ٹھہرایا گیا ہے کیونکہ یہ وہ جگہیں ہیں “جہاں اللہ کا نام بہت لیا جاتا ہے”۔

تمام متعلقہ ذرائع سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جنگ کے مسئلہ پر قرآن کا یہ سب سے اولین حوالہ ہے یہ آیات حضورنبی کریمﷺ کے مدینہ جانے کیلئے مکہ چھوڑنے کے معاً بعد نازل ہوئیں۔ مندرجہ ذیل آیتوں میں جو اِن کے تقریباً ایک سال بعد نازل ہوئیں اپنے دفاع میں جنگ کے اصول کی زیادہ تفصیل ہے:۔

“اور اللہ کی راہ میں اُن لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں اور زیادتی نہ کرو اللہ زیادتی کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا ۔ اور جہاں اُن کو پاؤ مارو اور اُنہیں نکال دو جہاں سے اُنھوں نے تمہیں نکالا ہے۔ اور فتنہ قتل سے بڑھ کر سخت ہے”۔ سورۃ البقرہ آیات 191-190

ظاہر ہے کہ “جہاں اُن کو پاؤ مارو” کا حُکم ایسی صورتِ حال سے متعلق ہے جس میں مسلمانوں کے خلاف جارحیت کی گئی اور وہ اپنے دفاع میں جوابی جنگ کر رہے ہیں۔ پس جنگ کی اجازت ہے اگر وہ دفاعی نوعیت کی ہو۔ جنگ دشمن کو پسپا کرنے تک جاری رکھی جاسکتی ہے اور دُشمن کی پسپائی کے فوراً بعد بند کر دینی چاہئے

قرآن کی سورۃ توبہ جنگ کے مضمون کے متعلق نہایت اہم سورۃ ہے اور یہ وہ سورۃ ہے جس کو انتہا پسند مسلمان اور وہ لوگ جو الزام لگاتے ہیں کہ اسلام ایک متشددانہ دین ہے دونوں ہی غلط استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ اِس سورۃ کی آیت 4 اور آیت 7 میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ مسلمان صرف اُن لوگوں کے خلاف اعلان جنگ کرسکتے ہیں جنہوں نے اُن کے ساتھ کئے ہوئے معاہدہ کی خلاف ورزی کی ہو یا وہ جنہوں نے دشمنی کرنے میں پہل کی ہو۔

اس سورۃ میں اِس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ مُسلمان اپنے تمام وعدوں کا پاس کریں اور اُن کو کبھی نہ توڑیں اور یہ حُکم تما م وعدوں اور عہد ناموں کے متعلق ہے نہ صرف اُن وعدوں کے متعلق جو مُسلمان ایک دوسر ے کے ساتھ کرتے ہیں۔

نیز یہ بھی ” اور اگر وہ صلح کی طرف جُھکیں تو تُو بھی اُن کی طرف جُھک جا۔ اور اللہ پر بھروسہ رکھ وہ سننے والا جاننے والا ہے”۔سورۃ الانفال آیت 61

بعض اوقات یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ مُسلمان غیر مسلموں کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور اتحاد استوار نہیں کرسکتے۔ اس کی حقیقت کیا ہے؟

یہ دعویٰ اُس آیت کی غلط فہمی پر مبنی ہے جس میں محمدؐ کے زمانہ کے مسلمانوں سے کہاگیا ہے کہ وہ اُن لوگوں سے اتحاد نہ کریں جو اُن کے دین کے مخالف ہیں۔ لیکن ایک عام اصول وہ ہے جس کا قرآن شریف میں باربار اعادہ کیا گیا ہے کہ مسلمانوں اور غیر مُسلموں میں تعلقات امن اور انصاف پسندی پر مبنی ہونے چاہیئں۔ اس بارہ میں کِسی قسم کے ابہام کو دُور کرنے کیلئے قرآن میں صاف اور غیرمبہم الفاظ میں کہا گیا ہے:۔

“اللہ تمہیں اُن سے نہیں روکتا کہ جنہوں نے تمہارے ساتھ دین کے بارے میں لڑائی نہیں کی اور تمہیں اپنے گھروں سےنہیں نکالا کہ تم اُن سے احسان کرو اور اُن سے انصاف کرو۔ اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے”۔ سورۃ الممتحنہ آیت 8

قرآن مسلمانوں اور غیرمسلموں میں تعلقات کی صرف یہ حد متعین کرتا ہے:۔

“اللہ تمہیں صرف اُن لوگوں سے دوستی کرنے سے روکتا ہے جنہوں نے دین کے بارے میں تم سے لڑائی کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں (دوسروں) مدد کی۔ اور جو اُن سے دوستی کرتے ہیں تو وہی ظالم ہیں”۔ سورۃ الممتحنہ آیت9

خلاصہ:۔

مندرجہ بالا حوالہ جات کا خلاصہ مختصراً یہ ہے کہ اسلام کا اصول جہاد(بمعنی قتال) اپنی اصل میں محض دفاعی ہے اور یہ کِسی سے بدلہ لینے یا حساب چُکانے کا ذریعہ نہیں ہے۔ جبکہ آنکھ کے بدلے آنکھ کے اصول کی اسلام میں اجازت ہے لیکن ساتھ ہی ہمیشہ یہ ترغیب دی گئی ہے کہ یہ انصاف اور ہمدردی کے جذبہ سے ہو بلکہ اِس سے بڑھ کر یہ کہ اپنے دشمنوں کو معاف کردینے کا ہمیشہ مشورہ دیا گیا ہے۔ قرآن انسانی گروہوں اور انسانی حقوق کے دفاع کیلئے ایک بہت ہی بلند پایہ معیار مقرر کرتا ہے اور اگر کچھ مسلمان یا اُن کی حکومت ان اصولوں پر عمل پیرانہ ہیں تو اس بنا پر دین اسلام کی مُذمت کا جواز نہ ہونا چاہیئے۔ لیکن مسلمانوں کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسی حکومتوں اور نظریات کی مخالفت کریں جو اسلام کے بنائے ہُوئے اصولوں پرپوری نہیں اُترتی ہیں۔

اسلام میں مادی طاقت صرف حملہ آوروں اور مسلح فوجی قبضہ کے خلاف بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ اندرونی انقلاب یا بیرونی جنگ کی صورت میں طاقت کے جائز استعمال کی شرائط سخت ہیں جو نہایت واضح طور پر قرآن مجید، نبی کریم ﷺ کی احادیث اور کتب فقہ میں بتا دی گئی ہیں “اللہ کے راہ میں اُن سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں لیکن زیادتی نہ کرو” قرآن کی سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 190 کا حکم ہے۔ اِس کے علاوہ سورۃ النساء کی آیت 175، سورۃ الانعام آیت 151، سورۃ الحج کی آیات 40-39 اور سورۃ الشوریٰ کی آیات 42-41 بھی ایسے یا ان جیسے احکامات اور حدود اور قیود پر مشتمل ہیں۔ نیز:۔

“جو کوئی کسی جان کو بغیر جان کے (بدلہ کے) یا زمین میں فساد کے مار ڈالے تو گویا اُس نے تما م لوگوں کو مار ڈالا” سورۃ المائدۃ آیت 32

فرمان حضرت محمد نبی اللہﷺ ہے ” عورتوں اور بچوں اور جنگ میں حصہ نہ لینے والوں کو قتل نہ کرو”

اسلام کے مشاہیر قائدین میں سے بعض نے مناسب مواقع پر بدی کےمقابلہ میں عدم تشدّد کی حکمت عملی پر عمل کیا ہے۔ مندرجہ ذیل آیات قرآنی یقیناً عدم  تشدّدکا جواز مُہیاکرتی ہیں:۔

“اور نیکی اور بدی برابر نہیں (بدی کو) بہت اچھے طریق سے دُور کر۔ پھر تُو دیکھے گا کہ وہ شخص کہ تجھ میں اور اُس میں دُشمنی ہے گویا وہ دل سوز دوست ہے۔ اور یہ (خصلت) اُسی کو دی جاتی ہےجو صبر کرتے ہیں اور یہ اُنہی کو دی جاتی ہے جو بڑے روحانی نصیب والے ہیں”۔ سورۃحٰمٓ السجدہ آیات ۳۵-۳۴

تو پھر اسلام ‘دہشت گردی’ اور ‘خود کش بمباروں’ کے ساتھ مِلا ہؤا ہ دکھائی کیوں دیتا ہے؟

بعض تاریخی اور سیاسی اسباب خاص طور پر حالیہ طور پر چند دہائیوں میں مُسلم دُنیا اور دیگر مقامات پر انتہا پسندی میں اضافہ کا باعث بنے ہیں۔ یہ ایک تاریخی تجربہ پیش کرنے کا موقعہ نہیں ہے بہرحال یہ تسلیم کیا جانا چاہئےکہ غیر برداشت کے نظریہ کی زنجیرکھول دی گئی ہے۔ دُنیا کے ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمانوں میں سے ایک چھوٹی سی اقلیت نے اپنے گمراہ اور غیر اخلاقی اعمال کا جواز پیدا کرنے کیلئے اسلامی تعلیمات کی غلط تفسیر کر کے اسلام کو اغوا کر لیا ہے ایسے میں مُسلمانوں کیلئےیہ نہایت ضروری ہے کہ وہ ایسے انتہا پسندانہ نطریات اور اُن کے ظہور پذیر ہونیکی شدید مذمت کریں اس کے ساتھ ہی ساتھ غیرمُسلموں کیلئے بھی یہ انتہائی اہم ہے کہ وہ برملا تسلیم کریں کہ ایسا انتہا پسند نظریہ اسلام کے بنیادی اخلاقی اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے جو دُنیا کے مسلمانوں کی غالب اکثریت کے نزدیک قابل نفرین ہے۔کسی قانونی تشدّد یا غیر تشدّد کے دوران اپنی زندگی کو خطرہ میں ڈالنا چاہے اُس میں موت بھی ممکنات میں سے ہو جائز ہے لیکن جان بُوجھ کر اپنی زندگی کو ختم کرنا خود کشی ہے جس کی کسی بھی حالت میں اسلامی شریعہ میں اجازت نہیں ہے یہ جن کو خود کش بمبارکہا جاتا ہے اُنیس سو نوے کی دہائی سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہ آئے تھے۔ ایسی حکمت عملی کی اسلام کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ قرآن نے خاص طور پر صاف صاف کہا ہے “اپنے آپ کو قتل نہ کرو” سورۃ النساء آیت ۲۹

حدیث کے مطابق رسول کریمﷺ نے خود کشی کرنے والے کو جہنمی کہا ہے۔

جو لوگ اس طرح دین کو اغوا کرتے ہیں بہت سے مسلمانوں نے اُن کی مذمت کیوں نہیں کی؟

اس زمانہ میں عام طور پر پھیلا ہؤا یہ ایک محض گمراہ کُن افسانوی خیال ہے کہ مسلمانوں نے اُن لوگوں کے خلاف احتجاج نہیں کیا یا اُن کی مذّمت نہیں کی جو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے اسلام کے اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ ہُؤا یہ ہے کہ نہ صرف ذرائع ابلاغ نے ایسے احتجاجات اور مذمت کے بیانات کو حتی الوسع کم ہی رپورٹ کیا ہے بلکہ بعض اوقات گمراہ کُن کہانیاں بھی مشتہر کی گئی ہیں۔ کِسی مسلمان مرد یا عورت سے دریاف کیجئے کہ اُس نے گیارہ ستمبر کے بعد کے دنوں میں کیسا محسوس کیا تو آپ کو دُکھ درد، شرمساری اور گہرے افسوس کی کہانیاں سننے کو ملیں گی۔

کیا اسلام کی اخلاقی اقدار آج کل کی نئی دُنیا کیلئے موزوں ہیں؟ بعض اسلامی سزائیں وحشیانہ دکھائی دیتی ہیں مثلاً چوروں کے ہاتھ کاٹنا اور زنا کاروں کو کوڑے لگانا یا سنگسار کرنا وغیرہ؟

قرآن عرب میں ایسے لوگوں پر نازل کیا گیا جنہوں نے اُس سے قبل کوئی وحئ الٰہی نہ پائی تھی اور جو بمشکل ہی دُنیا کی عظیم دینی روایات سے واقف تھے۔ اسلام سے قبل عربوں میں قبائلی انتقام عام قانون تھا۔ اسلام کے قانونی احکامات ایسے وقت میں آئے جب وہاں نہ کوئی قانونی نظام تھا اور نہ کوئی جیل خانہ۔ ایسے میں اسلامی قانون ایک نہایت ترقی یافتہ نظام اِنصاف بن کر سامنے آیاجس کا بڑا مقصدتمکنتِ انسانی اور انسانوں کی معاشرتی بھلائی کو محفوظ بنانا تھا۔ اپنی انہی اقدار کی بدولت ایک سو پچاس سال کے عرصہ میں اسلام ایک عظیم تہذیب کی شکل اختیار کر گیا ۔

بعض معاملات میں قرآن میں جرائم کی سزاؤں کی تصریح کر دی گئی ہے اور یہ سزائیں زیادہ سے زیادہ حدِ سزا ہے جو اُس جُرم کے مرتکب کو دی جاسکتی ہے اور رحم اور تخفیفی وجوہات اور ہر مقدمہ کی اپنی خاص نوعیت کیلئے کافی وسعت یا گنجائش مُہیا ہے۔

اسلامی قانون کا اطلاق کبھی بھی ایک سخت خود کار آلہ کی طرح نہیں کیا گیا۔ اگرچہ مغربی ذرائع ابلاغ نے خاص خاص ملکوں کے بعض مقدمات کو سنسی خیز طریق پر پیش کیا ہے لیکن، اگر کوئی اسلام کی انصاف کی تاریخ پر نظر دوڑائے تو وہ اُس کو حقیقی دلائل کا ایسا ذخیرہ پائے گا جس کا بنیادی مقصد انصاف اور رحم مُہیا کرنا ہے۔ علاوہ ازیں اسلامی قانون ایک ایسا نظام ہے جو حالات موجودہ کے مطابق ڈھالے جانے کی مُکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ اسلامی فقہا اسلام کی ہمیشہ برقرار والی اقدار سے واقف ہوتے ہوئے اپنی عقل کی طاقت کو برُوئے کار لاتے ہُوئے اسلامی قوانین کی رحمدلانہ مناسب حال ا ور منصفانہ تشریح کرنے کے اہل ہیں۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ اُن مسلمانوں کیلئے جو وجود کثرتِ ادیان کے حامل معاشروں میں رہائش پذیر ہیں کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ اُس معاشرہ کے قوانین کی مخالفت کریں جب تک وہ منصفانہ ہیں بلکہ اُن کو اپنے اُس معاشرہ کے آئینی طور پر بنائے گئے قوانین پر عمل کرنا چاہیئے ۔

کیا اسلام امریکن جمہوریت کے ساتھ یکجا رہ سکتا ہے؟

ریاستہائے متحدہ امریکہ کا آئین اُن عالمی اقدار پر مبنی ہے جو عیسائیت اور اسلام سمیت تمام ادیان کی تعلیم کا حصہ ہے۔ امریکہ کا آئین اُتنا ہی اسلامی ہے جتنا وہ عیسوی ہے اور ہم مسلم امریکن اپنے آئین اور جمہوریت پر فخر کرتے ہیں۔ اسلام اور جمہوریت میں موافقت ہے اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکتے ہیں کیونکہ اسلام انسانوں کو قانون کی حکمرانی اور  تمکنتِ انسانی کی بنیادوں پر تربیت دیتا ہے امریکہ کے اعلان آزادی یعنی ڈیکلریشن آف انڈی پنڈنس کی ابتدائی سطور کو دیکھئے جن میں اعلان کیا گیا ہے:۔

“ہم اِن سچائیوں کو خود اپنا ثبوت جانتے ہیں کہ تمام انسان برابر تخلیق کئے گئے ہیں اور اُن کے خالق نے اُن کو جو بعض ناقابل اِنتقال حقوق عطا فرمائے ہیں اُن میں زندگی، آزادی اور خوشی کا حصول ہیں”

لہذا قرآن سے کِسی حوالہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کیونکہ تمام مُسلمان جانتے ہیں کہ مندرجہ بالا اصول تمام قرآن میں بکثرت موجود ہیں۔

حضرت محمدؐ کے پہلے چار خُلفا ءکو مُسلمانوں کے باہمی مشورہ سے منتخب کیا گیا تھا جو ایک نمائندہ  جمہوریت تھی۔ سیاسی حاکمیت کا واحد اصول جو قرآن میں دیا گیا ہے وہ ‘مشاورت’ کا اصول ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ اقوام باہمی مشاورت سے اپنے آپ پر حکومت کریں گی جیسا کہ ارشادِ باری تعالٰی ہے:۔

“اور اُن کا کام آپس میں مشورے سے ہوتا ہے” سورۃ الشورٰی آیت ۳۸

تو پھر مشرقِ وسطیٰ میں جمہوریت اتنی کامیاب کیوں نہیں ہے؟

جب بھی اور جہاں کہیں بھی اُس زمانہ کے حاکموں نے اقتدار میں رہنےکیلئے اور اپنے مُلک کے مالیاتی اور دیگر وسائل پر قطعی اختیار حاصل کرنے کی خاطر حکومت کرنے کی جمہوری اقدار اور قانون کے مطابق جوابدہی کو خیر باد کہا تو یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے نہ کہ دینی۔ بہرحال جب ایسی حکومتیں اسلامی ہونے کا دعوٰی کریں تو اُن پر اعتراض کیا جاسکتا ہے۔ ایسی حکومتیں لادینیت اور اسلام مخالف نظریات پر بھی عمل پیرا ہوسکتی ہیں جیسا کہ مندرجہ بالا صفحات میں ہم تفصیل سے بتا چُکے ہیں اسلام نے کوئی طرز حکومت تجویز نہیں کیا لیکن یقیناًانصاف اور اخلاقیات اور باہمی مشورے کے اصول ضرور تجویز کرتا ہے خوش قسمتی سے زمانہ بدل رہا ہے اور غیر متشددّانہ جمہوری تحریکیں عرب ممالک اور دوسرے اسلامی ممالک میں اُٹھنا اُن اقدار کا ثبوت ہیں جو ہم اس مقالہ میں پیش کررہے ہیں۔

کیا مسلمان یکساں مقاصد کے حصول کیلئے دوسروں سے تعاون کرسکتے ہیں؟

قرآن کے اصولوں پر عمل کرتے ہُوے مسلمانوں کو سب کی بھلائی کیلئے تعاون کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ قرآن باقی تمام خاصیتوں سے بڑھ کر تین خاصیتوں امن، ہمدردی اور رحم پر زور دیتا ہے ۔اسلام کا ایک دوسرے سے ملاقات کے وقت باہمی آداب کا مقرر قاعدہ ‘اسلام و علیکم’ ہے یعنی تم پر سلامتی یا امن ہو۔ محمد اسد مرحوم (جو یہودیت سے دین تبدیل کرکے اسلام میں آیا اور جو بیسویں صدی کے بڑے مُسلم دانشوروں میں شمار ہوتا ہے) کے مطابق ‘امن’ جس کا ذکر ‘اسلام و علیکم’ میں ہے ایک روحانی رمزپر مبنی اخلاقی مضبوطی کا حامل بھی ہے یعنی یہ تما م برائیوں سے محفوظ رہنے اور اِس طرح تما م اخلاقی جھگڑوں اور بے کلی سے محفوظ رہنے کی دُعا ہے۔

قرآن میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ نے اپنے لئے رحم کو لازم کرلیا ہے۔ جیسا کہ ارشادہے:۔

“تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کرلیا ہے کہ جو کوئی تم میں سے نادانی سے بُرائی(بدعمل) کر بیٹھے پھر اُس کے بعد توبہ کرلے اور اصلاح کرے تو وہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے” سورۃ الانعام آیت۵۴ مسلمان جو فرض نماز ادا کرتے ہیں یہ جملے ” بے انتہا رحم کرنے والا” اور “بار بار رحم کرنے والا” دن میں کم از کم سترہ بار دہراتے ہیں۔ اگر بے انتہا رحم کرنا اور بار بار رحم کرنا محبت کے معنی میں نہیں سمجھا جاتا تو پھر یہ ایک ایسا جُملہ ہےجس کے معانی اور اطلاق دونوں ہی سے بے خبری ہے۔

ایک امریکن مسلمان عبدالعزیزسچید نانے اس کی اِن الفاظ میں تشریح کی ہے “مسلمانوں کا ایمان ہے کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام،حضرت موسٰی علیہ السلام، حضرت عیسٰی علیہ السلام اور حضرت محمد ﷺ کے خُدا کے ماتحت رہتے ہیں۔ وہ خُدا قابل اعتماد ‘رحیم’، بار بار رحم کرنے والا  درد مند اور محبت کرنے والا خُدا ہے جو تما م انسانوں سے اُن کی ماں سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے۔ چونکہ اِنسان خُدا پر غالب نہیں ہوسکتا اس لئے اسلام خُدا کو ایک سیاسی اکائی بنانے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ انسان خُدا کی رحمیت اور غفاری کی صفات پر عمل پیرا ہو کر اُس سے تعلق جوڑ سکتا ہے”۔

کیاوحی الہٰی اور انسان کے ادراک(عقل) میں تضاد ہے؟ کیا اسلام ادراک کے استعمال کی حوصلہ افزائی یا حوصلہ شکنی کرتا ہے؟

ایمان اور انسان کے ادراک میں بنیادی طور پرکوئی تضاد نہیں خاص طور پر قرآن میں کہیں بھی کچھ ایسا نہیں ہے جو بنیادی طور پر عقل اور سائنس کی نفی کرتا ہو۔ بالکل بھی نہیں مثلاً قرآن کا نزول ساتویں صدی کے عرب میں محدود سائنسی آگاہی کے زمانہ کا ہے رسول کریمﷺ کے اقوال میں بعض اوقات ہمیں اُس زمانہ کی باقی ماندہ روائیتی اعتقادات اور غیرسائنسی آراء دیکھنے کو ملتی ہیں لیکن حضرت محمدؐ نے اپنے متبعین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اُن کی روحانی ہدایات کی پیروی کریں اور یاد رکھیں کہ دُنیاوی معاملات میں اُن کی رائے متبرک نہیں ہے۔

قرآن کوئی ایسا دینی علم پیش نہیں کرتا جو عقل کے برعکس ہو۔ دین اِسلام میں ایمان کوئی غیر معقول حالت نہیں ہے بلکہ ایمان وہ اعتقاد ہے کہ ہم ایک روحانی کائنات میں رہتے ہیں مقصدیت معانی اور رحم جس کی پہچان ہے۔ علاوہ ازیں خداداد بصیرت کے حامل پیغمبر اور نبی ہر انسانی معاشرہ میں آئے۔ اور آخرِ کار یہ کہ ہر وہ انسان خدا کے اُن نشانات پر غور کرتا ہے جو مناظرِ قدرت میں اور خود ہمارے باطن وجود میں موجود ہیں تو وہ ایمان کو معقول پائے گا۔ اسی کے متعلق قرآن میں ارشاد باری تعالٰی ہے:۔

“ہم اُنہیں اپنی نشانیاں اطراف میں اور اُن کی اپنی جانوں میں دکھائیں گے یہاں تک کہ اُن کیلئے کُھل جائے کہ وہ حق ہے” سورۃ حٰمٓ السجدہ آیت ۵۳

قرآن بار ہا انسانوں کو غور کرنے اور عقل سے کام لینے پر زور دیتا ہے کم از کم اسّی ۸۰ بار یہ عقل اور غور کرنے کی اہمیت کا ذکر کرتا ہے مثلاً سورۃ البقرۃ کی آیت 219، سورۃ آل عمران کی آیت 10، سورۃ الروم کی آیت 8 اور سورۃ الجاثیہ کی آیت نمبر5 وغیرہ۔ اس کی ایک اور مثال یہ بھی ہے:۔

“کیا اندھا اور دیکھنے والا برابر ہے سو کیا تم غور نہیں کرتے”۔ سورۃ الانعام آیت50

کیا اسلام ہمیشہ کیلئے ایک جامد اور غیر مُتغیر نظام پیش کرتا ہے یا یہ ایک لچک دار اور تغیّر پسند نظریہ ہے؟

قرآن کی بعض ایسی روحانی اقدار کو جو تما م زمانوں کیلئے ہیں اُن سے جن کا خاص تاریخی پس منظر ہے فرق کرنا ضروری ہے۔

قرآن انسانی زندگی کو ایک حقیقی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اُس کو بہتر بنانا چاہتا ہے۔ مثال کے طور پر غلامی جو کہ قرآن کے نزول کے وقت موجود تھی یک دم ہی منع نہ کر دی گئی لیکن غلاموں کے حقوق کو قائم کیا گیا اُن کو کھانا کھانے ، کپڑے پہننے، برداشت سے زیادہ کام نہ کروانے اور ظالمانہ سلوک سے محفوظ رہنے کے علاوہ کِسی طریق سے آزادی حاصل کرنے کے حقوق بھی دیئے گئے۔ حضور نبی کریم ﷺ اور اُن کے صحابہ نے اپنے بہت سے وسائل غلاموں کو خرید کر آزاد کردینے پر صرف کئے اور اپنی ذاتی مثال سے برایئوں کےاستحصال اور بالآخر غلامی کے رواج کو جڑ سے اُکھیڑ پھینکنے کیلئے ایک نظام کو مُتحرّک کیا۔

بظاہر سخت سزائیں جن کا قرآن میں ذکر ہے وہ اُس جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا سمجھا جا سکتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مُسلم فقہا نے ان سزاؤں کے اطلاق کی رحم کے جذبہ کے ساتھ تشریح کی ہے۔ اسلامی قوانین کا اولین منتہائے مقصد سزا دینا نہیں بلکہ ایک صاف ستھرا منصفانہ معاشرتی نظام قائم کرنا اور نتیجتاً تمکنت اِنسانی کی نشوو نما ہے۔

اسلام میں عورت کا کیا درجہ ہے؟ یوں لگتا ہے جیسے کہ عورتوں کو اسلام میں ثانویٰ حثیت حاصل ہے؟ اسلامی تعلیمات میں عورتوں کے کیا حقوق ہیں؟

قرآن کی تعلیمات میں مَردوں اور عورتوں کی برابری نہ صرف تسلیم بلکہ مستحکم کی گئی ہے اور یہ برابری ہر سطح پر مَردوں اور عورتوں کی مختلف مگر ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہوئی حالت طبعی اور روح کے لحاظ سے اللہ کے ہاں دونوں کی یکسانیت پر مبنی ہے۔

درحقیقت تاریخ عالم میں کسی اور دستاویز نے عورتوں کے حقوق اور مراعات کو مستحکم کرنے کیلئے قرآن سے زیادہ کام نہیں کیا ۔ چودہ سو برس پہلے قرآن نے عورتوں کیلئے شفقت اور احترام، روحانی مساوات، اپنی املاک کی ملکیت شادی اور طلاق کے معاملہ میں اُن کے حقوق اور کاروبا اور  سیاست میں اُن کی شرکت کو منوایا ہے۔ قرآن میں آتا ہے:۔

“مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ادلیا (یعنی دوست اور حامی اور مدد گار) ہیں”۔ سورۃ التوبہ آیت 71

قرآن کی مرکزی آیات میں سے ایک مردوں اور عورتوں کے تعلقات کی ایک لطیف اور مکمل احاطہ کرنے کی فرہنگ کی مثال ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے:۔

“مرد عورتوں کے ذر دار ہیں اس لئے کہ اُن میں سے بعض کو بعض پر فضیلیت دی ہے اور اس لئے کہ اُنہوں نے اپنے مالوں سے کچھ خرچ کیا ہے” سورۃ النساء 34

اس آیت میں موثر لفظ “قواّمون” ہے جس کی معانی مُتکفل یا محافظ یا خادم یا مالک کے ہیں ۔ اہم نقطہ یہاں یہ ہے کہ یہ لفظ مختلف کاموں کے یا ذمہ داریوں کے معنوں میں استعمال ہُؤا ہے جو اُن افضال کے مطابق جن سے اللہ نے نوازا ہے اور اُس دولت سے جو وہ خرچ کرتے ہیں مردوں پر عائد کی گئی ہیں۔ اس طرح یہ بہت سی قسم کے حالات جو ممکن ہیں اُن کو بیان کرتی ہے لیکن مردوں کو محض اس لئے کہ وہ مرد ہیں کوئی ترجیح نہیں دیتی۔

جس زمانہ میں قرآن نازل ہُؤا اُس زمانہ میں عرب معاشرہ میں عورت کو مالکانہ حقوق کی کوئی ضمانت مہیا نہ تھی اُس کو محض وہم یا خیال کی بنا پر طلاق دی جا سکتی تھی اور اپنے مرحوم خاوند کے بھائیوں کو دیگر جائیداد کی طرح ورثہ میں منتقل ہوتی تھی۔ لڑکی پیدائش پر اِس اُمید میں کہ اگلہ بچہ لڑکا ہوگا قتل کردیا جاتا تھا۔ قرآن نے وہ ہدایات دیں جن کے ذریعے اُن حالات کی اصلاح کی گئی جو عورتوں پر ظلم اور نا انصافی روا رکھتے تھے اوراس اصول کو قائم کیا کہ عورتیں خُود مختار ہیں جن کو مردوں کے برابر حقوق حاصل ہیں۔ عورتوں کو نہ صرف جائیداد کی نجی ملکیت کےحقوق دیئے گئے(وہ حق جو مغرب کی عورتوں نے حال ہی میں حاصل کیا ہے)اُن کو اپنے مرحوم والدین بھائیوں ، بہنوں اور خاوند کی پیچھے چھوڑی ہُوئی جائیداد میں وراثت کا حصہ دیا گیا ۔ نہ صرف یہ بلکہ خاوند کی طرف سے دیئے گئے حق مہر اور جہیز کا مالک بھی قرار دیا گیا جو اُن کے قبضہ میں رہتا  تاکہ طلاق کی صورت میں اُن کی کفالت کا سامان ہوسکے۔ اس سے صاف عیاں ہے کہ اسلامی اخلاقیات کی تعلیمات کے مطابق عورت کی بحثیت انسان ہتک آمیز اورذلالت آمیز حالت کو کِسی صورت معاف نہیں کیا جاسکتا۔

سو لہویں صدی عیسوی تک ہزاروں خواتین اسلام کی مدینہ، قاہرہ اور دمشق کی یونیورسٹیوں میں پڑھاتی تھیں یا پڑھتی تھیں۔ اُن کی بحثیت فقہا اور قانون دان عزّت کی جاتی تھی اور مرد بھی اُن کے طالبعلموں میں شامل تھے۔

افسوس کی بات ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ خواتین کی یہ آزادی سلب کر لی گئی اور اس کا کوئی دفاع کیا جاسکتا ہے نہ انکار۔ چاہے دین کا نام اِس حق تلفی کے جواز میں استعمال کیا گیا ہو لیکن مردوں اور عورتوں کے

تعلقات کے بگاڑ کا جو ہم نے بعض تہذیبوں میں مشاہدہ کیا ہے اُ س کا اصل سبب کسی حد تک پدرانہ بالادستی کے اثرات ہیں جو تا حال اکثر انسانی معاشروں کی پہچان بنا ہُؤا ہے۔ تاہم یہ اسلام کے حقیقی اصول نہیں ہیں اور اسلامی تعلیمات کی بنیادوں پر اِن کو رد کیا جا سکتا ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ مردوں کی اپنی بیویوں ، بیٹیوں، بہنوں اور ماؤں سے محبت کی حوصلہ افزائی کر کے اور عورتوں کو مقابلتاً زیادہ محفوظ اور باعزت مقام عطا کرکے اسلام نے گھریلو زندگی کی اقدار پر بہت زور دیا ہے۔ آج تمام دُنیا میں خواتین قرآن اور محمدؐ کی مثال کے حوالہ سے اپنے لئے معاشرہ میں ایک منصافانہ مقام کے حصول کیلئے تگ و دو میں مصروف ہیں۔

حضرت محمدﷺ نے خود کیسی مثال قائم کی؟

درحقیقت حضرت محمد ﷺ تمام مُسلمان مردوں کیلئے ایک اہم نمونہ ہیں۔ حضرت محمدؐ کی پہلی شادی ایک خود کفیل تجارت کرنے والی خاتون خدیجہ سے ہُوئی جو حضورؐ سے تقریباً پندرہ برس زیادہ عمر کی تھیں یہ ایک خاوند اور بیوی کے درمیان ایک محبت بھرا ازدواجی تعلق تھا جو اُس وقت ختم ہُوا جب حضرت خدیجہ اُن سختیوں اور مصائب کی وجہ سے جو مکہ میں مسلمانوں کے ابتدائی دور میں اُن پر وارد کئے گئے انتقال فرماگئیں۔ حضرت محمدؐ کی دوسری بیوی اُن کے عزیزدوست ابوبکرؓ کی بیٹی حضرت عائشہ تھی۔ جیسا کہ اُس زمانہ میں عام رواج تھا اُن کا نکاح کم عمری  ہی میں ہُؤا لیکن رخصتی بلوغت کی عمر کے بعد ہُوئی۔ حضرت عائشہ بھی ایک آزاد منش اور نڈر خاتون تھیں جو اپنے دل کی بات بلاخوف حضرت محمدؐ سے کہہ دیتی تھیں اور وہ حضرت رسول کریم ﷺ کی عُمر بھر کی پرستا ر زوجہ تھیں اور وصال نبی کریم ﷺ کے بعد وہ مسلمانوں کی نہایت عالمانہ شخصیت اور ذاتی طور پر بہت عقلمند خاتون شمار ہوتی تھیں۔ اُنہوں نے دو ہزار کے قریب احادیث نبوی بیا ن کی ہیں۔

بعد کے سالوں میں حضرت محمدؐ نے اور خواتین سے بھی شادیاں کیں جو پختہ عمر خواتین تھیں جنکی یا تو پہلے کسی اور سے شادی ہوچکی تھی اور اکثر بیوگان تھیں۔ اپنے آخری سالوں میں جب بالآخر اسلام نے کچھ اقتصادی وسائل اور طاقت حاصل کرلی تھی ایسے میں بھی حضرت محمدؐ نے ایک درویشانہ اور فقیرانہ زندگی بسر کی اِس میں شک نہیں کہ حضرت محمدؐ  خواتین سے بہت محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے اُنہوں نے زندگی بھر کبھی کِسی عورت پر ہا تھ نہیں اٹھایا۔

زمانہ ء حال کے پاکبازی کے دعویدار انتہا پسند عورتوں کے متعلق  اپنے انتہا پسندانہ رویہ کے جواز میں رسول کریم ﷺ کی ایسی احادیث پیش کرتے ہیں جو غیر مصدقہ اور پچھلے زمانہ کی جعلسازی ہیں اور یہ سب کے علم میں ہے کہ بہت سی احادیث سیاسی مقاصد کی برآری کیلئے گھڑلی گئی تھیں۔قرآن نے مساوات کے اصول کا حُکم دیا ہے اور رسول کریم ﷺ کے اپنے بہت سے اقوال کے ذریعہ مردوں کی عورتوں پر بالادستی کے قبیلائی نظام کے ڈھانچہ اور روائیتی توقعات کو ختم کیا ہے۔ احادیث بنوی کے مصدقہ یا غیر مصدقہ ہونے کا تجزیہ کرتے ہوئے ہمیں یہ خیال رکھنا ضروری ہوگا کہ آیا ہم اُن احادیث کو زیادہ قابل اعتبار ٹھرائیں گے جو مردوں کی عورتوں پر بالادستی کے غیر منصفانہ زمانہ ء جاہلیت کے قبیلاتی نظام کو جائز قرار دیتی ہیں اور اُس نظام کا دفاع کرتی ہیں یا اُن احادیث کو جو خواتین کیلئے معاشرہ میں ایک منصفانہ باعزّت مقام قائم کرنے کی تعلیم دیتی ہیں۔ رسول کریم ﷺ کی جو حدیث ہم تک پہنچی ہے یہ ہے کہ:۔

 “جو کوئی بھی اپنی بیٹی کو تعلیم دیتا ہے اُس کے لئے جنت الفردوس کی ضمانت ہے”

ایک اور حدیث جو اسلام کے روحانی حلقوں میں بہت پیار سے دیکھی جاتی ہے یہ ہے کہ:۔

“تین چیزیں جو میرے لئے اس دُنیا میں محبوب بنائی گئی ہیں خواتین ، خوشبو اور صلوٰۃ ہیں۔ ان میں میری آنکھوں کی تراوٹ ہے”۔

اختتامی کلمات

مسلمانوں کی اکثریت یہاں تک کہ وہ جو اس کے احکام پر عمل نہ کرتے ہوں اپنے دین سے بےپنا ہ محبت رکھتے ہیں اور خواہاں ہیں کہ اُن کے دین کا احترام کیا جائے یا کم از کم اُسے حقارت کی نظر سے نہ دیکھا جائے اور نہ ہی اُس سے خوفزدہ ہُؤا جائے۔ اگر ہم نے اُن تما م سوالوں کا جو اُٹھائے جاسکتے ہیں جواب نہ دیا ہو تو اُمید ہے کہ ہم نے اُن میں سے نہایت اشد سوالوں کا جواب ضرور لکھ دیا ہے۔

اسلام کوئی اجنبی دین نہیں ہے اور نہ ہی یہ نیکی اور سچائی پر اجارہ داری کا دعویدار ہے یہ اپنے سے قبل کی تمام روحانی راہوں کو جو مناظرت قدرت اور خود انسان کی اپنی زندگی میں ایک ہی روح یعنی خدا کے عمل پیرا ہونے کا اظہار ہیں تسلیم کرتا ہے اور یہ تمام مقدّس روایات کے عظیم پیغمبروں اور انبیاء کی راہ پر گامزن ہے۔

ہم دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں اور خواہشمند ہیں کہ ہمیں اُن مقاصد کے حصول میں اتحادی سمجھا جائے جو تمام انسانوں میں معاشرتی انصاف، ماحولیاتی دانشمندی، امنِ عالم اور تمکنت انسانی مُہیا کرنے کیلئے کی جارہی ہیں

والسّلام

کبیر ہلمنسکی